موسسہ نصرت اسلامی



حضرت امام موسییٚ کاظم علیہ السلام

تحریر :مصطفی علی فخری

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ، رسول مقبول حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتویں جانشین اور ہمارے ساتویں امام ہیں ۔سلسلہ عصمت کی نویں کڑی ہیں.

آپ کے والد گرامی حضرت امام جعفر صادق علیه السلام اور مادر گرامی حضرت بی بی حمیده  خاتون هیں جو مکتب جعفری کے تربیت یافته هونے کے ناطے طهارت باطنی اور پاکیزگی روح کے اعلا درجات تک پهنچ گئی تھیں که امام جعفر صادق علیه السلام نے ان کے بارے میں فرمایا : حمیدة مصفاة من الادناس کسبیکة الذهب ما زالت الاملاک تحرسها حتی ادیت الی کرامة من الله لی والحجة من بعدی » . [1]

حمیده خالص سونے کی مانند آلودگیوں سے پاک هیں مجھ تک پهنچنے تک فرشتے همیشه ان کی حفاظت کرتے تھے یه الله کی کرم هے مجھ پر اور میرے بعد والی حجت پر .

 امام محمد باقر علیہ السلام جناب حمیدہ خاتون کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: آپ دنیا میں حمیدہ اور آخرت میں محمودہ ہیں ۔

ولادت با سعادت  :

ابوبصیر کهتا هے که هم حضرت امام صادق علیه السلام کے ساتھ حج په جا رهے تھے جب ابواء کے مقام پر پهنچے تو آپ نے همارے لئے ناشتے کا اهتمام کیا  هم ناشته کرنے میں مصروف تھے اتنے میں حضرت امام صادق علیه السلام کی زوجه کی طرف سے ایک شخص خبر لے کرآیا که ان کی حالت خراب هو گئی هے اور درد زه شروع هو چکا هے چونکه آپ نے فرمایا تھا جلدی اس بارے میں خبر دوں اس لئے حاضر هوا هوں.آپ علیه السلام اسی وقت کھڑے هو گئے اور اس شخص کے ساتھ زوجه کے پاس چلے گئے تھوڑی دیر بعد واپس آگئے آپ کو شاد مان دیکھ کر هم نے مبارکباد کها اور زوجه کی صحت کے بارے میں پوچھا تو فرمایا : الله تعالی نے حمیده کو سلامتی  عطا کی هے اور مجھے ایک بیٹا دیا هے جو مخلوقات میں سب سے بهتر هے میری زوجه نے اس بچه کے بارے میں ایک مطلب مجھے بیان کیا اور گمان کررهی تھی که مجھے معلوم نهیں هے لیکن میں اس بارے میں ان سے زیاده جانتا هوں.

میں (ابو بصیر) نے اس مطلب کے بارے میں پوچھا تو فرمایا :" حمیده کهه رهی تھی که جب یه بچه پیدا هوا تو هاتھوں کو زمین پر رکھا اور سر آسمان کی طرف بلند کیا " تو میں نے حمیده  سے کها یه رسول خدا (ص) اور آپ کے بعد والے وصی کی نشانی هے .[2]

اس طرح حضرت ابو الحسن موسی کاظم علیه السلام هفتم صفر المظفر سنه 128ھ (بمطابق ۱۰نومبر ۷۴۵ء) بروز هفته سر زمین ابواء (مکه اور مدینه کے درمیان ) میں پیدا هوئے .[3] ولادت کے فوراً بعد ہی آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر آسمان کی طرف رخ کرکے کلمہ شہادتین زبان پر جاری فرمایا۔ یہ عمل آپ نے بالکل اسی طرح انجام دیا جس طرح آپ (ع) کے جد بزرگوار حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انجام دیا تھا۔آپ کے داہنے بازو پر یہ کلمہ ” تمت کلمۃ ربک صدقا وعدلا لکھا ہوا تھا۔

حضرت امام موسی بن جعفر علیه السلام کے القاب :

آپ کا نام موسی  کنیت :ابو الحسن اول، ابو الحسن ماضی، ابو ابراهیم، ابو علی، ابو اسماعیل اورآپ کے القاب :کاظم، عبدصالح، نفس زکیه، زین المجتهدین، وفی، صابر، امین اور زاهر هے. ابن شهرآشوب کهتے هیں :چونکه آپ اخلاق کریمه کے ساتھ چمک گئے اس لئے زاهر» اور چونکه غصوں کو پی لیتے تھے اس لئے  کاظم » مشهور هو گئے .[4]

 ولادت سے امامت تک :

حضرت امام موسی کاظم علیه السلام اپنے اجداد طاهرین کے مانند ولادت کے وقت سے هی خاندان اهلبیت (علیهم السلام ) میں ایک خورشید تابنده کی طرح چمک رهے تھےدوران بچگی سے هی آثار امامت آپ میں نمایاں تھیں حضرت امام جعفر صادق علیه السلام نے آپ کی ولادت کے بعد شیعوں کو حضرت امام موسی کاظم علیه السلام کی امامت کے متعلق آگاه فرمایا اور اس طرح فرمایا : فعلقوا بابنی هذا المولود. فهو والله صاحبکم من بعدی ».میرے اس فرزند کے ساتھ لٹک جاو .الله کی قسم یه میرے بعد تمهارے صاحب (امام )هیں. [5]

یعقوب بن سراج کهتا هے که "- ایک مرتبه -میں حضرت امام جعفر صادق علیه السلام کے پاس گیا تو دیکھا که آپ اپنے فرزند موسی کے گهوارے کے پاس کھڑے هیں اور آپ کا فرزند گهواره میں هے امام علیه السلام نے تھوڑی دیر ان کے ساتھ راز وگفتگوکی اور گفتگو تمام هونے کے بعد میں قریب گیا تو مجھ سے فرمایا : اپنے مولا کے پاس جا کر سلام کرو . میں نےگهواره کے نزدیک  جا کر سلام  کیا  تو موسی بن جعفر علیه السلام نے جبکه گهوارے میں تھا  اچھےانداز میں میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا " جا کر اپنی بیٹی کیلئے کل جو نام (حمیرا )انتخاب کیا هےتبدیل کرو  پھر میرے پاس آجاؤ  چونکه الله تعالی ایسا نام پسند نهیں کرتا  "تو میں جاکر ان کا نام تبدیل کر دیا .[6]


انسان کی زبان میں اتنی طاقت یا صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اپنے خالق کی حمد و ثناء کا حق ادا کر سکے۔یہ اس کا فضل و کرم ہے کہ اس نے انسان کو تمام مخلوقات پر اشرفیت عطا فرمائی ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ شرط بھی لگا دی ہے کہ اے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بشارت دے دو ہمارے ان بندوں کو جو ہمارے قول کو غور سے سنتے ہیں اور اس پر بھرپور عمل کرتے ہیں۔ اسی بشارت کے تحت پروردگار نے اپنے جملہ احسانات کا بھی تذکرہ اس لئے کر دیا تا کہ انسان کا قلب اور اس کا شعور ہمیشہ روشن رہے اور وہ اپنے خالق کے احسانات سے کبھی فراموشی یا غفلت نہ برتے۔ چنانچہ آگے چل کر سورہ رحمن میں مزید ارشاد ہو رہا ہے :
الرَّحْمٰنُ(۱)عَلَّمَ الْقُرْآنَ (2) خَلَقَ الْإِنْسانَ (3) عَلَّمَهُ الْبَیانَ (4)
’’وہ خدا بڑا مہربان ہے۔اس نے قرآن کی تعلیم دی ہے۔ انسان کو پیدا کیا ہے۔اور اسے بیان سکھایا ہے۔‘‘
(سورۂ رحمٰن، آیت ۱-۴)
اس پیکر خاکی میں اشرفیت کا اجالہ کہاں سے آتا اور ہمیشہ عقل سرگرداں رہتی اگر خداوند عالم نے کوئی ایسا معلم اپنی طرف سے نہ بھیجا ہوتا جو ہمیں اس آیت کے معنی و مطالب کو سمجھا سکتااور اپنی سیرت کے ساتھ ہماری رہبری کر سکتا۔
انسان کی زندگی ایک سفر ہے جو مھد سے لے کر لحد تک تمام ہوتا ہے۔ اس سفر میں معلوم نہیں کتنے حوادث رونما ہوتے ہیں۔ ارض خاکی کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں گناہوں کے طوفان نہ اٹھتے ہوں۔ جہاں انسانیت پر متواتر حملے نہ ہوتے ہوں۔ جہاں شرافت کو پامال کرنے کے منصوبے اور خاکے نہ ابھرتے ہوں۔ ابلیسیت نے بھی ٹھان رکھی ہے کہ ہم خدا کی اس مخلوق کو جسے اس نے اشرفیت دی ہے گمراہی کے پرخطر ماحول میں ڈھکیلتے رہیں گے۔ چنانچہ قرآن کی آیت ہے کہ شیطان نے پکہ ارادہ کر لیا ہے کہ میں بغض و عداوت انسانوں کے درمیان پھیلا دوں گا نشاآوری اور جوئے کے ذریعہ انھیں نماز سے روک لوں گا۔ کلام الہی نے قلوب و ذہن و شعور و ضمیر و عقل کو شیطان کے اس ارادہ سے اچھی طرح واقف کر دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کی ہدایت کے لئے معصوم رہبر کی رہبری بھی عطا فرمائی ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے اپنی نعمتیں نازل کی ہیں۔
اس بیان کے سامنے ایک معصوم رہبر اس دنیا میں جن کی رہبری کر رہا ہے اس کے لئے کتنی آفتیں کتنی مصیبتیں کتنی تکلیفیں کتنی رکاوٹیں اور کتنی مخالفتیں ہیں اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن رہبر تو وہی ہے جو ان آفتوں مصیبتوں تکلیفوں رکاوٹوں مخالفتوں حادثوں کو توڑتا ہوا اپنے رہ روان منزل کی ہدایت پر مضبوطی کے ساتھ مامور رہے۔ یہاں ٹھہر کر رہبر اور راہ رو کے درمیان رابطہ کتنا مضبوط ہونا چاہئے اس کے لئے ہم نے مقدمہ میں اللہ کے کلام کی طرف قارئین کو دعوت فکر دی ہے۔ اس رابطہ کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے رہبر کے مطیع، فرمانبردار اور بہترین نصرت کرنے والے بنیں۔ہم اس نصرت کی وضاحت کے لئے کچھ اقوال معصومین قارئین کے لئے پیش کرنے کی سعادت حاصل کریں گے تاکہ اس نصرت کی عظمت ، بزرگی ،افلاکیت کا کچھ حق ادا ہو سکے۔
کتاب محاسن برقی میں روایت ہےکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امیر المومنین علی علیہ السلام سے فرمایا:
’’آپ کی مثال ’قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ‘ جیسی ہے جس نے اسے ایک بار پڑھا اس نے ایک تہائی قرآن کی تلاوت کی اور جس نے دو بار پڑھا اس نے دو تہائی قرآن کی تلاوت کی اور جس نے تین بار پڑھا اس نے پورے قرآن کی تلاوت کی۔ اور اسی طرح جوشخص دل سے آپ سے محبت کرے گا تو اسے بندگان خدا کے ایک تہائی (نیک) اعمال کا ثواب ملے گا اور جو کوئی آپ سے دل سے محبت کرے گا اور اپنی زبان سے مدد کرے گا تو اسے بندگان خدا کے دو تہائی (نیک) اعمال کا ثواب ملے گا اور جو کوئی آپ سے دل سے محبت کرے گا اور زبان اور ہاتھوں سے مدد کرے گا تو اس کا ثواب تمام بندگان خدا کی نیکیوں کے برابر ہے۔ ‘‘
(محاسن ج ۱ ص ۱۵۳، بحار الانوار ج ۲۷ ص ۹۴)
کتاب محاسن سے ایک اور حدیث نقل کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں جس میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’جنت میں تین درجات ہیں اور جہنم میں بھی تین طبقے ہیں ۔جنت کا سب سے اعلی درجہ ان لوگوں کے لیے ہے جو دل سے ہم سے محبت کرتے ہیں اور اپنی زبان اور ہاتھوں سے ہماری مدد کرتے ہیں اور دوسرا درجہ ان لوگوں کے لیے ہے جو دل سے ہم سے محبت کرتے ہیں اور اپنی زبان سے ہماری نصرت کرتے ہیں اور تیسرا درجہ ان لوگوں کے لیے ہے جو دل سے ہم سے محبت کرتے ہیں۔اور جہنم کا سب سے نچلا طبقہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے دل میں ہماری عداوت رکھتے ہیں اور اپنی زبان اور ہاتھوں سے ہمارے خلاف (ہمارے دشمنوں کی) مدد کرتے ہیں اور دوسرا طبقہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے دل میں ہماری عداوت رکھتے ہیں اور اپنی زبان سے ہمارے خلاف (ہمارے دشمنوں کی) مدد کرتے ہیں اور تیسرا طبقہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے دل میں ہماری عداوت رکھتے ہیں۔‘‘
(محاسن ج ۱ ص ۱۵۳، بحار الانوار ج ۲۷ ص ۹۳)
نصرت امام کا طریقہ
۱) دل سے نصرت:صاحب ایمان کب اپنے کو مومن کہنے کا حق رکھتا ہے اگر اس کے دل میں اس کے قلب میں نصرت امام کا جذبہ موجیں نہ مار رہا ہو۔ ہر لمحہ اس کے دل کے مضراب سے نصرت امام کا نغمہ نہ ابھر رہا ہو۔ قلب مومن اس احساس کا حامل ہوتا ہے جو جذبہ نصرت امام سے اتنا قوی ہوتا ہے جس کے لئے شاعر نے کہا ہے
ہوحلقہ یاراں تو ہے ریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
۲) زبان سے نصرت: تقویٰ ،طہارت ، احتیاط، پرہیزگاری زبان میں ایک عجیب و غریب تاثیر پیدا کرتے ہیں۔ اس کی باتیں جو ناصر امام ہوتا ہے گوش گذار ہونے کے بعد دل گداز ہوتی ہیں ورنہ جب امام حسین نے حر ؒ سے کہا جا تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے اس وقت حر ؒ لرزاں براندام تھا لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہا تھا اے فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں آپ کی مادر گرامی کی شان میں ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکتا ہوں۔ زبان کی اس تاثیر کو پیدا کرنے کے لئے نصرت امام کا ذریعہ علم اور عمل ہے جیسا کے میں نے پہلے بیان کیا ہے۔
۳) ہاتھ سے نصرت: شاعر نے کیا خوب کہا ہے
تجھے ہے شوکت شمشیر پر گھمنڈ بہت
تجھے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ
سلطنت جہانگیری کے تمام آثار و نشانات مٹ گئے لیکن شہید ثالث نور اللہ شوستری کے دست مبارک سے لکھی ہوئی کتاب احقاق الحق آج تک سارے عالم کے منصف مزاج دانشوروں کو حق کی طرف دعوت دے رہی ہے۔
سنا ہے ہمارے امام وقت کا دست مبارک ذوالفقار پر ہے جس کی تاسی میں ہم شب و روز دعائے عہد کا یہ فقرہ دہراتے ہیں ۔ اے اللہ جب ہمارے امام کا ظہور ہو اور ہم زندہ نہ ہوں تو قبر سے اس طرح اٹھائے جائیں کہ کفن بردوش ہوں اور نیزہ ہاتھ میں ہو اور ہم اپنے ہاتھوں سے دشمن پر حملہ آور ہوں۔
علامہ مجلسیؒ روایت کرتے ہیں : ہشام امام جعفر صادق علیہ السلام کی نشست میں داخل ہوئے، وہاں بزرگ اصحاب بھی موجود تھے جب کہ وہ ابھی نوجوان تھے امام نے ان کا احترام کیا اور اپنے پہلوں میں بٹھایا۔ جب امام نے دیکھا ان کا یہ عمل کچھ اصحاب پر گراں گذرا تو امام نے فرمایا:
هَذَا نَاصِرُنَا بِقَلْبِهِ وَ لِسَانِهِ وَ یَدِهٖ
’’یہ ہمارا ناصر و مددگار ہے دل سے، زبان سے اور ہاتھ سے۔‘‘
ہشام اس لئے لائق احترام تھے کہ وہ امامت و ولایت کی دفاع کیا کرتے تھے۔
۴) عمل کے ذریعہ امام کی نصرت: عمل کارشتہ یقین اور محبت سے اٹوٹ ہے ۔ یقین جتنا گہرا ہوگا محبت اس گہرائی کا ثبوت عمل کے ذریعہ دیتی رہے گی۔ عمل اس وقت تک عمل نہیں ہے جہاں پاؤں لڑکھڑاتے ہوں اور ذہن میں تزل پیدا ہو۔ عمل نام ہے اس ثبات قدمی کا جو علم سے وابستہ ہو اور وہ علم جس کے ذریعہ انسان خود کو پہچانے اور جس نے خود کو پہچانا اس نے اپنے امام کو پہچانا اور جس نے اپنے امام کو پہچانا اس نے خدا و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہچانا۔ اس جملہ کے ذریعہ انسان اپنی زندگی میں پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے کہ اس کا کوئی عمل ایسا نہ ہو جو اس کے امام کی مرضی کے موافق نہ ہو۔
عمل شخصیت کو سجاتا ہے۔ شخصیت میں نور کی کرنیں پیدا کر دیتا ہے۔ وہ نور جو نور امامت کا پرتو ہو۔ بظاہر ہم عمل کے نام پر کبھی کبھی منفی پہلوؤں سے بھی سمجھوتا کر لیتے ہیں۔ اگر عمل کے اس رویہ پر احساس جاگ اٹھے تو انسان کو پروردگار نے وہ عرصہ دیا ہے کہ وہ مایوسی کا شکار نہ ہو۔ لیکن پھر توبہ کرنے کے بعد اپنی غلطیوں پر اسرار نہ کرے۔ یہ ایک ہلکہ سا تجزیہ ہم عوام کے لئے ضرور ہے لیکن لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَۃِ اللہِ کا تقاضہ ہے کہ ہم رحمت خداوندی سے مایوس نہ ہوں۔
عمل ہی سے زندگی بنتی ہے عمل ہی سے جنت بھی ہے عمل ہی سے جہنم بھی ہے۔ اس لئے ہر وقت انسان کو بیدار رہنا چاہئے اور اپنے اعمال پر بھرپور نظر رکھنا چاہئے۔ اگر ہمارا یہ عمل ہمارے امام کی امامت پر پھرپور یقین کے ساتھ ہے اور اس کی سے محبت سے وابستہ ہے تو ہمارا امام ہمارا رہبر اپنی رہبری کی شان کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے لغزشوں کو معاف بھی کردیتا ہے اور ہمیں گمراہی سے بچاتا بھی ہے۔خدا ہم کو عمل صالح کی توفیق دے۔
پس ’نَاصِرُنَا بِیَدِہٖ‘ اسے کہا جاتا ہے جو عمل سے امام کی نصرت کرتا ہے۔اس وضاحت کے ساتھ کہ سب سے اہم ترین ذریعہ امام کی نصرت کا یہ ہے کہ انسان اپنے اخلاق اور انفرادیت اور سماجیت میں ائمہ کی حیات طیبہ کو سامنے رکھے۔ اور دین کی تبلیغ کرے اور امام کی نصرت اپنے عمل و اخلاق سے کرے۔
امام زمانہ علیہ السلام کی صحیح تبلیغ صرف زبانی یا قلمی جیسے درس دینا اور کتابت نہیں بلکہ ہر وہ عمل جو لوگوں کو امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت کرائے اور امام اسے پسند کرے اسے دینی تبلیغ کہا جائے گا۔اگر کوئی چاہے کہ وہ قلم کے ذریعہ تبلیغ کرے اور اس کا عمل، قلم کی تصدیق نہ کرے تو اس کا منفی اثر ہوگا۔ لہٰذا دین کی تبلیغ کے معاملہ میں زبان سے زیادہ عمل اثر انداز ہوتا ہے ۔ لوگ آپ کی باتوں پر زیادہ توجہ کرینگے اگر آپ کا قول،آپ کے عمل سے مطابقت رکھتا ہو۔
اما م صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
کُوْنُوْا دُعَاةً لِلنَّاسِ‏ بِالْخَیْرِ بِغَیْرِ أَلْسِنَتِکُمْ لِیَرَوْا مِنْکُمُ الْاِجْتِهَادَ وَ الصِّدْقَ وَ الْوَرَعَ
’’لوگوں کو خیر کی دعوت دینے والے بنو بغیر اپنی زبان کا استعمال کئے۔ لوگ تم میں جدو جہد، صداقت اور پرہیزگاری مشاہدہ کریں۔‘‘
(بحار الانوار، ج ۶۸، ص ۷)
اگر کوئی صحیح عقیدہ رکھتا ہے اور اہل بیت علیہم السلام سے متمسک ہے او روہ ایسا عمل کرتا ہے جس سے اللہ ناراض ہوتا ہے پھر حقیقتاً نہ وہ اہل بہت علیہم السلام پر ایمان رکھتا ہے اور نہ تو ان سے متمسک ہے۔ اس لئے کہ جو امام چاہتا ہے وہ اللہ کی رضامندی کے بالکل مطابق ہوتا ہے۔ رضائے الہی مطلوب و محبوب ہے امام کو اور یہی توقع امام اپنے چاہنے والوں سے رکھتے ہیں۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
إِیَّاکُمْ‏ أَنْ‏ تَعْمَلُوا عَمَلًا یُعَیِّرُونَّا بِهِ فَإِنَّ وَلَدَ السَّوْءِ یُعَیَّرُ وَالِدُهُ بِعَمَلِهِ‏ کُونُوا لِمَنِ انْقَطَعْتُمْ إِلَیْهِ زَیْناً وَ لَا تَکُونُوا عَلَیْهِ شَیْناً
’’خبردار وہ عمل انجام نہ دینا جس کے وجہ سے لوگ ہماری مذمت کریں۔ کیونکہ بری اولاد اپنے عمل کی وجہ سے اپنے باپ کی مذمت کا سبب ہوتی ہے۔ تم جس سے تعلق رکھتے ہو اس کے لئے باعث زینت بنو اور اس کے لئے باعث ذلت نہ بنو۔‘‘
(الکافی ج ۲ ص ۲۱۹)
اگر بیٹا کوئی نامناسب فعل انجام دیتا ہے تو اس کا اام والد پر ہوتا ہے اور لوگ اس کے مربی کی سرزنش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیوں بیٹے کی صحیح تربیت نہیں کی۔ ائمہ اپنے شیعوں کو سب سے قریب جانتے ہیں اور ایک شفیق باپ کی مانند اپنے بیٹوں کے ہر عمل پر نظر رکھتے ہیں ۔ جب کوئی شیعہ نامناسب فعل انجام دیتا ہے تو وہ غمگین ہوتے ہیں اور اس کی غلطی کو اپنے لیے باعث ذلت جانتے ہیں اور ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے لیے باعث فخر بنیں۔
شیعہ ،امام زمانہ علیہ السلام کی معرفی اپنے ہی اخلاق سے کراسکتے ہیں
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
أَلَا وَ إِنَّ لِکُلِّ مَأْمُومٍ إِمَاماً یَقْتَدِی بِهِ وَ یَسْتَضِی‏ءُ بِنُورِ عِلْمِهِ أَلَا وَ إِنَّ إِمَامَکُمْ قَدِ اکْتَفَى مِنْ دُنْیَاهُ بِطِمْرَیْهِ وَ مِنْ طُعْمِهِ بِقُرْصَیْهِ أَلَا وَ إِنَّکُمْ لَا تَقْدِرُونَ عَلَى ذَلِکَ وَ لَکِنْ أَعِینُونِی بِوَرَعٍ وَ اجْتِهَادٍ وَ عِفَّةٍ وَ سَدَادٍ
’’ہرماموم کا امام ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے اور اس کے علم سے نور کو لیتا ہے خبر دار تمہارے امام کو اس دنیا سے دو بوسیدہ لباس اور دو روٹیاں کافی ہے یقینا تم اس طرح نہیں ہوسکتے لیکن ورع، اجتہاد، عفت او راستقامت کے ذریعہ ہماری مدد کرو۔‘‘
(بحار الانوار ج ۳۳ ص ۴۷۴)
ہم اپنی زندگی امام علیعلیہ السلام کی طرح بالکل بسر نہیں کرسکتے لیکن ہم ان کی پیروی کرسکتے ہیں اور ہمیں چاہیے کہ اہل دنیا کی طرح نہ بنیں۔ دنیا میں کشش بہت ہے اور عام طور سے انسان کو مصروف رکھتی ہے اور انسان کو اس کے اصل مقصد سے دور کردیتی ہے۔
سید ابن طاؤسؒ اپنے فرزند سے فرماتے ہیں:
بہت سے لوگ امام زمانہ علیہ السلام پر ایمان تو رکھتے ہیں لیکن ان کے اعمال اور گفتار صحیح نہیں ہے ۔ ان کا امام کے وجود پر ایمان تو ہے اور ان کے ظہور پر یقین بھی رکھتے ہیں لیکن اپنے اعمال سے ظہور اور ذکر کو بھلا دیا ۔
امام زمانہ علیہ السلام اپنی توقیع میں فرماتے ہیں:
إِنَّا غَیْرُ مُهْمِلِینَ‏ لِمُرَاعَاتِکُمْ وَ لَا نَاسِینَ لِذِکْرِکُمْ وَ لَوْ لَا ذٰلِکَ لَنَزَلَ بِکُمُ اللَّأْوَاءُ وَ اصْطَلَمَکُمُ الْاَعْدَاءُ فَاتَّقُوا اللهَ جَلَّ جَلَالُهُ وَ ظَاهِرُونَا عَلَى انْتِیَاشِکُمْ مِنْ فِتْنَةٍ قَدْ اَنَافَتْ عَلَیْکُمْ‏
’’یقینا ہم تمہاری نگہداشت سے ہرگز غافل نہیں ہیں او رتمہارے ذکر کو نہیں بھلاتے اگر ایسا نہ ہوتا تو پریشانیاں تمہیں گھیر لیتی او ردشمن تمہیں کچل دیتے ۔ پس تقویٰ اختیار کرو اور ہماری مدد کرو کہ ہم تمہیں فتنوں سے بچائیں جو تمہیں گھیرے ہوئے ہیں۔ ‘‘
(الاحتجاج ج ۲ ص ۴۹۷)
حاج شیخ حبیب اللہ کے ایک عالم دوست نے فرمایا: ایک بار میں بس میں تہران سے مشہد کے لیے سفر میں تھا، ایک جوان بہترین لباس مثل یورپی میرے بغل میں بیٹھا تھا ۔ راستے کے درمیان جب نماز کا وقت ہوا، اس جوان نے ڈرائیور پر زور دیا کہ نماز اول وقت ادا کرسکے۔ اس کی باتوں سے مجھے حیرانی ہوئی کیونکہ اس کے حلیہ سے ان باتوں کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ میں نے اس سے دریافت کیا : اتنے زور دینے کی کیا وجہ ہے؟ اس نے کہا: میں حال ہی میں یورپ سے آیا ہوں اور میں وہاں پڑھائی کرتا ہوں ۔ جب میں وہاں تھا، بہت ہی کم وقت میں ضروری ہوگیا تھا کہ میں دو امتحان دوں جو دو الگ شہروں میں تھا۔ میں گاڑی سے ایک شہر سے دوسرے شہر جارہا تھا کہ ناگاہ بیچ راستے میں گاڑی خراب ہوگئی اور بہت کوششوں کے بعد بھی وہ ٹھیک نہیں ہوپائی ۔ آہستہ آہستہ میں ناامید ہوتا جارہا تھا کہ اگر امتحان ہال میں نہ پہونچ سکا تو میرا پورا سال برباد ہو جائے گا ۔ میں اسی کشمکش میں تھا کہ مجھے اپنی والدہ کی باتیں یاد آئیں، جو ہمیشہ کہتیں تھی: جب بھی کوئی پریشانی آپڑے تو امام زمانہ علیہ السلام سے توسل کرنا ۔ امام عنایت فرمائیں گے۔ اسی لمحہ میں امام زمانہ علیہ السلام سے متوسل ہوا اور میں نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ اگر امام عنایت کریں اور میں امتحان گاہ تک پہونچ گیا تو میں نماز ہمیشہ اول وقت پڑھا کروں گا ۔ فوراً ایک شخص آیا اور بونٹ کو اٹھایا اور اس نے کچھ کیا اور گاڑی سہی ہوگئی ۔ پھر وہ گاڑی میں کچھ دور ساتھ چلا اور جب وہ چلنے لگا تو اس نے مجھے دیکھا او رکہا: جو تم نے اپنے امام علیہ السلام سے عہد لیا ہے اسے نبھانا اور نظروں سے اوجھل ہوگیا۔اس لیے میں اول وقت نماز پڑھنے کا پابند ہوگیا۔
ہر انسان چاہے وہ مشرق کا ہو یا مغرب کا زمانہ سے شکایت کرنے پر مجبور ہے ۔ بد اعمالیوں نے قانون کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ قباحت اچھایئوں میں گنی جانے لگی ہے۔ سماج شہوت پرستی کی طرف دوڑ رہا ہے۔ صالحین کے لئے راستے مسدود نظر آتے ہیں۔ سب صحیح ہے لیکن ہمارا امام غائب بھی ہے اور حاضر بھی ہے۔اللہ ہمیں ان کی بتائی ہوئی روش پر چلنے کی توفیق عطا کرے تا کہ بداعمالیاں برائیاں خرابیاں فساد فتنہ یہ تمام راستہ کو مسدودکرنے والے خودبخود کنارے لگ جائیں اور ہماری راہ بالکل خیمہ گاہ امام کی طرف صاف نظر آنے لگے۔


امام مہدی علیہ السلام اور ان سے دشمنی کے سلسلے

 

 

خدا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس دن سے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور، ان کے ذریعہ دنیا کے عدل و انصاف سے بھرنے، ظلم و جور کے خاتمہ اور ظالم و جابر و ستم گر کی نابودی کی بشارت دی ہے، اس دن سے لوگوں نے ان کی دشمنی بھی شروع کردی ہے۔ امام مہدی علیہ السلام سے دشمنی آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے جیسے جیسے ظہور کا وقت قریب آتا جارہا ہے دشمنی بڑھتی جارہی ہے اور دشمنی کے نئے نئے انداز بھی سامنے آرہے ہیں۔ اس زمانہ میں ہماری ذمہ داری ہے کہ اس دشمنی کو خوب اچھی طرح سمجھیں ان کے طرز و انداز کو درک کریں۔ ان حملوں سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے ہر طرح سے آمادہ رہنا چاہئے۔ ذیل میں دشمنی اور مخالفت کے چند اسباب ذکر کرتے ہیں۔
۱۔ جہالت
انسان کی فطرت میں ایک عنصر حیات یہ بھی تڑپتا رہتا ہے کہ وہ جس کو نہیں جانتا ہے یا نہیں پہچانتا ہے اس کی مخالفت کرتا ہے اور اپنی فکری طاقت کے ساتھ اس سے ٹکرانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب مکہ والوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مخالفت شروع کی اور دشمنی پر کمربستہ ہوئےتو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طرح دعا فرمائی:
اَللّٰھُمَّ اِھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
خدایا میری قوم کی ہدایت کر یہ لوگ مجھے پہچانتے نہیں ہیں۔
یہ لوگ اس بنا پرمیری مخالفت کررہے ہیں دشمنی پر آمادہ ہیں کہ رسول اورسالت سے واقف نہیں ہیں۔ اگر ان کو معلوم ہوتا میں کیا ہوں، میرا پیغام کیا ہے تو یہ مخالفت نہ کرتے۔ یا جب بازار شام میں اس شامی بوڑھے نے اسیران کربلا کے سامنے خوشی کا اظہار کیا تواس کی خوشی کی وجہ یہ تھی کہ اس کو نہیں معلوم تھا یہ لوگ ہیں۔ جب امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنا تعارف کرایا اور وہ حقیقت سے واقف ہو گیا توفوراً اس نے توبہ کرلی اور اس کی دشمنی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔
اس وقت کچھ لوگ صرف اس بنا پر حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی مخالفت کررہے ہیں کہ وہ ان کی عظمتوں سے واقف نہیں ہیں۔
۲۔ ذاتی مفاد:
کبھی ذاتی مفاد ، دنیا کی محبت ، شہرت پرستی، حب ریاست انسان کو حق کے راستے سے منحرف کردیتی ہے۔ حق بات قبول کرنے سے روک دیتی ہے۔ طلحہ و زبیر کو دنیا کی محبت نے ریاست طلبی نے حضرت علی علیہ السلام کے مقابل کھڑا کردیا تھا ان لوگوں نے باقاعدہ اور مسلسل حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانی حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کی حدیثیں سنی تھیں وہ جانتے تھے کہ حق صرف اور صرف حضرت علی علیہ السلام کے پاس ہے لیکن دنیا کی محبت اورریاست طلبی نے ان کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا تھا وہ جانتے ہوئے بھی حق قبول نہیں کررہے تھے بلکہ حق کی مخالفت کرر ہے تھے اور دشمنی پر جنگ و قتل پر آمادہ تھے۔ اس طرح کے افراد کے بارے میں حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ہے:
اِنَّ النَّاسَ عَبِیدُ الدُّنْیَا وَ الدِّینُ لَعْقٌ عَلَى اَلْسِنَتِهِمْ یَحُوطُونَهٗ مَا دَرَّتْ مَعَایِشُهُمْ فَاِذَا مُحِّصُوا بِالْبَلَاءِ قَلَّ الدَّیَّانُونَ.
یقینا لوگ دنیا کے غلام ہیں دین ان کے لیے زبان کا ذائقہ ہے جب تک ان کی روزی روٹی دین سے وابستہ ہے دین کی باتیں کرتے رہتے ہیںلیکن جب بلائوں میں گرفتار ہوتے ہیں اس وقت دیندار افراد بہت کم ہوتے ہیں۔
(تحف العقول، ص ۲۴۵)
یعنی دین اور دینداری بس اسی وقت تک ہے جب تک ذاتی مفاد اور دنیاوابستہ ہے اگر دنیا خطرہ میں پڑی تو دین سے کنارہ کشی کرلیتے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
ہمارے چاہنے والے تین طرح کے لوگ ہیں:
(۱) فِرْقَةٌ اَحَبُّونَا انْتِظَارَ قَائِمِنَا لِیُصِیبُوا مِنْ دُنْیَانَا فَقَالُوا وَ حَفِظُوا کَلَامَنَا وَ قَصَّرُوا عَنْ فِعْلِنَا فَسَیَحْشُرُهُمُ اللهُ اِلَى النَّارِ
(۲) وَ فِرْقَةٌ أَحَبُّونَا وَ سَمِعُوا کَلَامَنَا وَ لَمْ یُقَصِّرُوا عَنْ فِعْلِنَا لِیَسْتَاْکِلُوا النَّاسَ بِنَا فَیَمْلَاءُ اللهُ بُطُونَهُمْ نَاراً یُسَلِّطُ عَلَیْهِمُ الْجُوعَ وَ الْعَطَشَ
(۳) وَ فِرْقَةٌ اَحَبُّونَا وَ حَفِظُوا قَوْلَنَا وَ اَطَاعُوا أَمْرَنَا وَ لَمْ یُخَالِفُوا فِعْلَنَا فَأُولَئِکَ مِنَّا وَ نَحْنُ مِنْهُمْ
(تحف العقول /۶۲۲)
۱۔ کچھ لوگ ہم سے اس لیے محبت کرتے ہیں اور ہمارے قائم کا انتظار کرتے ہیں تا کہ ان کو دنیاوی فائدہ حاصل ہو۔ ہماری باتیں کرتے ہیں۔ہماری حدیثیں یاد کرتے ہیں لیکن عمل کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں۔ خدا ان لوگوں کو جہنم میں بھیج دے گا۔
۲۔کچھ لوگ ہم سے اس بنا پر محبت کرتے ہیں ہماری باتوں کو سنتے ہیں ہماری باتوں پر عمل بھی کرتے ہیں لیکن لوگوں سے مال و دولت حاصل کرنے کے لیے خدا ان کے شکموں کو آگ سے بھر دے گا اور ان پر بھوک و پیاس مسلط کردے گا۔
۳۔ اور کچھ لوگ ہم سے محبت کرتے ہیں ہماری باتوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہمارے حکم کی اطاعت کرتے ہیں ہماری نا فرمانی نہیں کرتے ہیں یہ لوگ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں۔
یہ محبت دنیا سبب بنتی ہے کہ لوگ امام وقت کے لیے اس طرح کام نہیں کرتے جو کرنا چاہیے اور جو کرتے ہیں ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اگر امام وقت علیہ السلام سے واقعاً محبت و الفت ہے تو خوش ہونا چاہیے۔ ہمارا دشمن ہے مگر ہمارے امام کا نام تو لے رہا ہے۔ نفس امارہ ، ذاتی دشمنی کو امام وقت تک پہنچا دیتا ہے۔ جو شخص اپنے ذاتی مفاد کی خاطر لوگوں کے حقوق پامال کررہا ہو اپنے برادران ایمانی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش نہ آرہا ہو وہ ظلم کے مقابلہ میں کیونکر کھڑا ہوسکتا ہے اور کیونکر ظلم و ستم کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اتحاد و اتفاق بین المسلمین کو برطرف کرتے ہوئے المومنین کے درمیان جو اختلافات، انحرافات، بے سبب جانبداری، تگری ایسے بہت سے عوامل پائے جاتے ہیں وہ تمام اسی ذاتی مفاد کی اساس پر قائم ہیں۔ مرکزیت پر جمع ہونے کے لئے یکجہتی ہماھنگی، ہمگامی، ہمنوائی معصومین کی طرف سے دعوت عمل دے رہی ہے اور ہمارے لئے مرجعیت کا ایک روش منار قائم کر دیا ہے۔ اس کے باوجود جب ہم قوم میں افراد کے درمیان نفس امارہ کا بڑھتا ہوا زور سامنے آتا ہے تو ائمہ معصومین علیہم السلام کی مذکورہ احادیث قلب کو روشن کرتی ہے کہ ذاتی مفاد کس قدر فعالیت رکھتا ہے۔
۳۔ خودبینی و انانیت:
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عقیدہ کے سب سے بڑے دشمن دنیا کے ظالم ترین ستمگر ترین افراد ہیں۔امام علیہ السلام کے روز ولادت سے آج تک وہی لوگ سب سے زیادہ مخالفت کررہے ہیں جو ظالم و جابر ہیں۔ کل کے ظالم و جابر بنی عباس نے اپنی پوری طاقت لگا دی کہ امام زمانہ زندہ نہ رہنے پائیں ان کے قتل کے جتنی کوششیں کرسکتے تھے کر ڈالی۔ آج کے ظالم بھی مختلف انداز سے عقیدہ مہدویت کی مخالفت کررہے ہیں۔ وہ مسلمان جو عقیدہ مہدویت کے قائل ہیں خاص کر شیعیان اہل بیت علیہم السلام وہ ہمیشہ ان ظالموں کی زد پر رہتے ہیں۔ یہ لوگ کبھی ولادت کا انکار کرتے ہیں کبھی طولانی عمر کا مذاق اڑاتے ہیں کبھی غیبت میں وجود امام کے فوائدپر سوال اٹھاتے ہیں کبھی اصل عقیدہ مہدویت کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔وہ ہر ممکن طرز و انداز وسائل و اسباب سے کوشش کرتے ہیں کہ اس عقیدہ کوکمزور کریں چاہنے والوں کو اپنے امام وقت سے غافل کریں یہ لوگ کبھی دوست بن کر عقیدہ مہدویت میں تحریف کرتے ہیں انتظار جیسے کردار ساز جیسے عقیدہ کی الگ الگ ڈھنگ سے تفسیر کرتے ہیں۔
۴۔ تحریف حقائق:
دشمنی کا ایک انداز یہ بھی ہے جو بہت ہی زیادہ خطر ناک ہے اس کو درک کرنے کے لیے تیز بصیرت کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اصل عقیدہ کو برقرار رکھا جائے اس کی ترویج کی جائے لیکن اس کے معانی ومفاہیم پوری طرح بدل دئے جائیں تحریف کردئیے جائیں مثلاً یہ ایک حقیقت ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام جب تشریف لائیں گے ساری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے ہر طرف ہر جگہ غدیری اسلام ہوگا۔ دشمن اس طرح بیان کرتے ہیں اس وقت ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے سب کام امام کریں گے۔ یہ بھی دشمنی کا ایک طریقہ ہے۔ جب کہ انتظار قدم قدم پر تعمیر کردار ہے۔ ظہور کے لیے زمین ہموار کرنا لوگوں کو آمادہ کرنا ان کو تقویٰ پرہیزگاری ،بہادری و شجاعت کا درس دینا ہر وقت نصرت و خدمت کے لیے تیار رہنا ہماری شرعی ذمہ داری ہے۔ مہدویت کا وہ تصور پیش کرنا جو لوگوں کو غیر ذمہ دار بنا دے مسؤلیت کا احساس سلب کرلے یہ مہدی دوستی نہیں مہدی دشمنی ہے۔ روایتوں میں باقاعدہ جگہ جگہ یہ بات ملتی ہے جو ہمارے قائم علیہ السلام کا انتظار کررہا ہے اس کو متقی پرہیزگار اورباورع ہونا چاہیے۔
لوگوں کو مایوس کردینا، ظلم کے خلاف بے حس کردینا ، جہالت کا عادی بنا دینا مرجعیت کو کمزور کرنا…یہ سب تحریف ہے۔
کیونکہ عقیدہ مہدویت امید ہے تلاش و جستجو ہے، ظلم کی مخالفت ہے،انفرادی و اجتماعی کردار سازی ہے۔ …زمانہ غیبت میں ان کے نائبین عام یعنی مراجع عظام پر بھروسہ کرنا ہے۔اعتماد کرنا ہے ان کی عزت و احترام کرنا ہے۔
عقیدہ مہدویت سے دور کرنے کے بعض طریقے
۱۔ بڑے پیمانہ پر ایسی کتابیں کتابچہ مقالات نشر کرنا جن میں مختلف انداز سے عقیدہ مہدویت پر اعتراض ہوں۔
۲۔ سوشل میڈیا ، ریڈیو، ٹیلی ویژن پر ایسے مباحثہ اورپروگرام منعقد کرانا اور ایسے لوگوں کو دعوت دینا جو سوالات کے معقول جوابات نہ دے سکتے ہوں۔
۳۔ بے جا مصروفیت:
کل کھیل کود اوردوسرے امور کے لیے خاص جگہیں معین تھیں لوگ وہاں جا کر اپنی ’’حسرتیں ‘‘ پوری کرتے تھے۔ اب کمپیوٹر اور موبائیل نے سارے اسباب گھر تو گھر ہر ایک کی جیب میں فراہم کردئے ہیں۔ اس میں وقت ضائع و برباد ہونے کے ساتھ ساتھ ذہنوں میں جو شکوک وشبہات ایجاد ہوتے ہیں وہ بہت ہی زیادہ خطرناک ہیں۔ یہ وہ خاموش بیماریاں ہیں جن کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ دشمن اس حربے سے باقاعدہ استفادہ کررہا ہے ایک سوال ایک اعتراض ڈال کر سب کو اس طرح الجھا دیتا ہے کہ سب اپنا کام اپنی ذمہ داریاں بھول جاتے ہیں۔ اس دشمنی کی وجہ یہ ہے کہ اس نے انسان کو اور خاص کر جوانوں کو حقیقت کی دنیا سے دور کردیا ہے سب کو دنیا کا دیوانہ بنا دیا ہے۔یہ وبا چونکہ مغرب سے آئی ہے لہٰذا مغرب کی تباہیاں بھی اپنے ساتھ لائی ہے۔ … بے حیائی، بے غیرتی ، لاپرواہی ، توہم پرستی، خام خیالی … اب جو ان کی شخصیت اس کا وقار ،علم ادب اخلاق تہذیب و مروت نہیں ہے بلکہ کسی دنیا دار کی اندھی پیروی اور پھٹی پرانی جیز ہے۔یہ دہشت گردی یہ بے صبری ، یہ غیض و غضب، یہ طیش یہ بد زبانی …یہ سب مغربی تہذیب کی دین ہے۔ جو اس وقت ہر گھر میں ڈیرا جمائے ہوئے ہے۔
۴۔ انٹرنیٹ:
سب سے زیادہ تباہی و بربادی کا سبب انٹرنیٹ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹرنیٹ کے فائدہ بھی بے شمار ہیں۔ بڑے سے بڑے کام آسانی سے ہو جاتے ہیں انٹرنیٹ نے تحقیقات تلاش و جستجو آسان کردی ہے۔ رابطے بہت زیادہ آسان اور سریع ہوگئے ہیں۔ دوسرے سوشل میڈیا کے مقابلہ میں انٹرنیٹ کا میدان زیادہ وسیع ہے اور امکانات بھی بہت زیادہ ہیں اس کی اہمیت کے مد نظر دشمن نے اس پر خاصی نظر رکھی ہے۔ شکوک و شبہات ایجاد کرنے میںذہنوں کو خراب کرنے میں۔ عقائد کو سست و کمزور کرنے میں اس کا ایک خاص کردار ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے ہر چھوٹا بڑا صرف وابستہ نہیں ہے بلکہ دیوانہ ہے وائی فائی نے اور زیادہ قیامت ڈھا دی ہے۔
لہٰذا اس وقت ان اسباب ووسائل پر خاص نظر رکھنا نسل جدید کو ان کی تباہیوں سے محفوظ رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہم جوانوں کو انٹرنیٹ سے تو دور نہیں کرسکتے ہیں لیکن اس کا صحیح و معقول استعمال بتا کر ان کو ان کے عقائد کو تباہی و بربادی سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔دشمن کے اس آلہ کار کو منفی کے بجائے مثبت چیزوں میں استعمال کرسکتے ہیں۔
اس انٹرنیٹ کے بڑے بڑے کرشمے ہیں جس نے ارباب تظر کو بھی اپنی فسونسازی کے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس کی جادوگری کے تحت میں یہ شعر ہمیں بیدار کرتا ہے کہ
دنیا کا ورق بینش ارباب نظر میں
ایک تاش کا پتا ہے کفِ شعبدہ گر میں
مہدویت کا عقیدہ اگر ارباب نظر میں اس شعبدہ گر کی پرچھائی بن جائے تو انٹرنیٹ اس کی قصیدہ خوانی کرنے لگتا ہے۔ یہی ضرورت ہے کہ ہم ایسے ارباب نظر کے مقابل ماضی کے ان تمام حقائق جو نعمت کی تفسیر ہیں اور جن کی کردار کی روشن قندیلیں ہماری راہ گذر میں ہرسنگ میل پر آویزاں ہیں۔ ہم اس سے ہمیشہ گریزاں رہیں ورنہ یہ ارباب نظر بھی ہمیں دھوکہ دے رہے ہیں اور ہمیں آخری امام کی حکومت سے غافل کرنے میں اپنی کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں۔ (یہاں ارباب نظر سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنی تحریف کی کوششوں کو انٹرنیٹ سے جوڑے ہوئے ہیں)۔
علاج
(۱) جہالت کا مقابلہ اس طرح کریں زیادہ سے زیادہ اور شرعی حدود میں رہتے ہوئے ہر امکانی صورت کے ذریعہ لوگوں کو مہدویت کے حقیقی و واقعی چہرہ سے واقف کرائیں حضرت حجۃ بن الحسن العسکری علیہ السلام کی وہ تصویر زمانہ کے سامنے پیش کریں جو ان کے آباء و اجداد نے بیان فرمائی ہے جب لوگ ان کی واقعی تصویر دیکھیں گے تو خود بخود ان کی دشمنی چھوڑ کر ان کی محبت کا دم بھرنے لگیں گے۔ جہالت دشمنی کا سبب ہے معرفت محبت کا سبب ہے۔اس کے لیے ہر سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے یہ ایک فرد کا نہیں بلکہ سب کا کام ہے۔ تفقہ فی الدین میں نہایت اہم کام معرفت امام ہے۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے ابا صلت سے فرمایا:
رَحِمَ اللهُ عَبْداً اَحْیَا اَمْرَنَا فَقُلْتُ لَهٗ وَ کَیْفَ یُحْیِیْ اَمْرَکُمْ قَالَ یَتَعَلَّمُ عُلُومَنَا وَ یُعَلِّمُهَا النَّاسَ فَإِنَّ النَّاسَ لَوْ عَلِمُوا مَحَاسِنَ کَلَامِنَا لَاتَّبَعُونَا
(وسائل الشیعہ ۱۴/۵۸۷)
خدا اس بندہ پر رحمت نازل کرےجو ہمارے امر کو زندہ کرے۔ میں نے عرض کیا کس طرح آپ کے امر کو زندہ کریں۔فرمایا: ہمارے علوم سیکھو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دو جب لوگ ہمارے کلام کے حسن سے واقف ہوں گے تو ہماری پیروی کریں گے۔
(۲) ذاتی مفاد: اس سلسلہ میں بس اتنا کام کریں مفادات کو صرف دنیاوی امور میں محدود نہ رکھیں بلکہ آخرت کے مفاد کو نظر میں رکھتے ہوئے اس کو چند روزہ زندگانی دنیا پر ترجیح دیں۔ دنیا میں ذرا سی قربانی آخرت میں بڑے بڑے ثواب و درجات کا سبب ہوگی۔ ‘‘
بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا۝۱۶ۡۖ وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى۝۱۷ۭ
(سورہٴ اعلی، آیات ۱۶-۱۷)
تم لوگ زندگانی دنیا کو ترجیح دیتے ہوجب کہ آخرت بہتر ہے اورزیادہ باقی رہنے والی ہے۔
(۳) تکبر و انانیت: اس کا علاج یہ ہے کہ ان تمام لوگوں کو باور کرا دیں کہ آپ لاکھ رکاوٹیں ایجاد کرڈالیں کسی بھی صورت میں اور دنیا کی کوئی بھی طاقت خواہ وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو وہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کو روک نہیں سکتی ہے وہ آئیں گے اور ضرور آئیں گے لہٰذا آپ کے حق میں بہتر یہی ہے کہ مخالفت چھوڑ کر اطاعت کا راستہ اختیار کریں خود کی اصلاح کریں تا کہ ظہور کے وقت آپ کا شمار حضرت کے خدمت گذاروں میں غلاموں میں ہو نہ کہ دشمنوں میں۔
(۴) تحریف حقائق: اس کا علاج لوگوں تک صحیح بات پہونچانا ہے اس میں وقت ضرور لگے گا دقتیں ضرور پیش آئیں گی مگر کامیابی ۱۰۰ فیصد یقینی ہے۔
جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ۝۰ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا۝۸۱
حق آگیا اورباطل نابود ہو گیا اوریقینا باطل کو نابود ہی ہونا تھا۔
اس کے لیے ان تمام شکوک و شبہات ، اشکال و اعتراضات کا باقاعدہ جائزہ لینا ہوگا جو سوشل میڈیا۔ پرنٹ میڈیا اور انٹرنیٹ وغیرہ پر پھیلائے جارہے ہیں اگر دشمن باطل کی کمزور و ضعیف بنیادوں کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب ہورہے ہیں۔ تو حق کی مضبوط ترین بنیادوں کی بنا پر ہم کامیاب کیوں نہیں ہوسکتے۔ ہمیں یہ بولنا چاہئے اور ہر قدم پر ورد زبان رہے:
دشمن اگر قویست نگہبان قویترست
اگر دشمن بہت قوی ہے تو ہمرا نگہبان اس سے زیادہ قوی ہے۔
اس کے لیے کتابچہ ، کتابیں ، رسالہ ، مقالات ، کانفرنس ، سیمینار ، علمی مباحثہ …… منعقد کریں۔ مستند ترین حوالوں کے ذریعہ بات کو واضح کریں اور یقین جانیں کہ اہل بیت علیہم السلام کی حقانیت میں وہ تاثیر ہے باطل کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا انصاف پسند متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
امام زمانہ علیہ السلام کی راہ میں اٹھایا جانے والا خلوص کا ہر قدم تائید خداوند سے محروم نہیں رہے گا۔ ہر ہر قدم پر خدا کی تائید اور اہل بیت علیہم السلام کی دعائیں ساتھ ساتھ رہیں گی۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی اس حدیث پر گفتگو کو حسن اختتام دیتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
شِیعَتُنَا مَنْ لَا یَعْدُو صَوْتُهٗ سَمْعَهٗ وَ لَا شَحْنَاؤُهٗ بَدَنَهٗ وَ لَا یَمْتَدِحُ بِنَا مُعْلِناً وَ لَا یُجَالِسُ لَنَا عَائِباً وَ لَا یُخَاصِمُ لَنَا قَالِیاً اِنْ لَقِیَ مُؤْمِناً اَکْرَمَهُ وَ إِنْ لَقِیَ جَاهِلًا هَجَرَهٗ
(شرح اصول کافی، ج۹ ، ص۱۶۳- ۱۶۴)
ہمارے شیعوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی آواز کان سے نہیں کرتی ہے۔ اگر کسی سے متنفر ہوتے ہیں تو دوسروں کے لئے ایذاترساں نہیں ہوتے۔ وہ علی الاعلان غیر کے مجمع میں ہماری باتیں نہیں کرتا ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ اس کی نشست و برخاست نہیں ہے جو ہمارے لئے عیب جو ہوتے ہیںان لوگوں سے بحث و مناظرہ نہیں کرتا ہے جو ہمارے دشمن ہیں جب مومن سے ملاقات کرتا ہے تو عزت و احترام کرتا ہے اورجب جاہل کا سامنا ہوتا ہے تو اس سے کنارہ کشی کرتا ہے۔
حدیث کی صداقت آواز دے رہی ہے:
شور دریا سے یہ کہتا ہے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
خدا کرے ہماراشمار بھی ان لوگوں میں ہو۔
آمین۔


تنظیم نصرت اسلامی طلاب بلتستان مقیم مشھد مقدس

مشن نصرت

سن 1440ھجری قمری کو مشھد مقدس جوار حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام میں حسینیہ اصغریہ میں  عید غدیر یوم تجدید امامت کی  مناسبت سے جشن منعقد ہوا جس میں علماکرام نے شرکت کی۔

تنظیم نصرت اسلامی کے طلاب کے مابین مقالہ نویسی کا معقد ہوا تھا اس کا نتیجہ کا اعلان ہوا جشن کے حوالے سے تقریری مقابلہ بھی رکھا تھا آخر میں نمایاں کارکردگی انجام دینے والے طلاب کو انعامات سے نوازا گیا۔

جشن کے تصاویر

جشن کے سٹیج سیکٹری کی ذمہ داری جناب محمد ایوب شگری انجام دیے رہے تھے۔

جشن کا آغاز تلاوت تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کا شرف صدر نصرت برادر یاسر مصطفوی کو حاصل ہوا۔

تقریری مقابلہ کا پہلا مقرر جناب برادر شیخ نبی جعفری تھے۔

دوسرا مقرر جناب شیخ مبارک علی عارفی تھے۔

جشن مین مہمانان گرامی تشریف فرماہیں۔

جشن کے مہمان خصوصی جامعہ ت کے صدر جناب حجت الاسلام و المسلمین شیخ انصار ثقلین جعفری صاحب تھے ۔ صدارت کے طور پر حجت الاسلام شیخ محمدحسین بہشتی صاحب تھے

جشن کے آخر میں مقالہ نویسی اور تقریری مقابلہ میں حصہ لینے والے برادران کو صدر کی طرف سے خصوصی انعامات سے نوازا گیا۔

تمرین نصرت اسلامی

 


آخرین ارسال ها

آخرین جستجو ها